مکی اور مدنی عہد میں نبوی دعوت کا طریقہ کار

مفتی محمد عارف باللہ القاسمیؔ
 === 
اللہ نے انسانیت کی رشد وہدایت کیلئے سلسلہ وار انبیاء کرام کو بھیجا اور پھر اخیر میں آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہادی ورہبر بناکر مبعوث فرمایا، آپ ﷺ نے اپنے دعوتی مشن کے ذریعہ خدا سے دور بندگان خدا کو خدا کے قریب کیا اور شیطانی راج کو ختم کرکے ایسا صالح معاشرہ تیار کیا جو اخلاص بیز ہونے کے ساتھ ساتھ للہیت سے لبریز تھا۔
آپ ﷺ کی دعوتی محنت کا آغاز آپ کے وطن عزیر مکہ مکرمہ سے ہوا ، اور پھر مدینہ آپ کا وطن اور مرکز دعوت بنا،آپ نے اپنی مزاج شناسی کی خداداد بے نظیر قوت اورنورنبوت سے روشن بصیرت کے ذریعہ دونوں ہی جگہوں کے تقاضوں اور حالات پر نظر رکھتے ہوئے دعوت کے ایسے اسلوب اختیار کیا جو ان حالات کے بالکل عین مناسب اور موافق تھے، چناں چہ آپ کی پراثر دعوت اور پر حکمت طریقۂدعوت نے کم عرصہ میں ایسی کامیابی حاصل کی کہ بارگا ہ الہی سے یہ اعلا ن آگیا :
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدۃ : ۳)
’’آج میں تمہارے لئے تمہارا دین پورا کرچکا ، اور تم پر میں نے اپنا احسان پورا کیا، اور میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین پسند کیا‘‘
اور وہ آواز جو ابتداءً ایک فرد کی آواز تھی پورے عالم کی آواز بن گئی اور وہ تحریک جسے پناہ اور سہارے کی ضرورت تھی پورے جزیرۃ العرب پر حکمراں بن گئی۔ اور پھر ترقی کرتے ہوئے پورے عالم میں پھیل گئی۔اور عالم کے بے شمار افراد کو اپنے حلقہ میں لے کر دنیا کی ایک بڑی تحریک بن گئی ۔
نبی اکرم ﷺ کا مکی دور درحقیقت مظلومیت ،بے بسی اور بے کسی کا دور ہے ۔ اور اسی بے بسی اور بے کسی کے زیر اثر پہلی اور دوسری ہجرت کی صورت بھی پیدا ہوئی،ورنہ وطن کو چھوڑنا کوئی آسان کام نہیں،مکی زندگی میں رسول اللہ ﷺ کو بت پرستی میں محو ایسے بت پرستوں سے سامنا تھا جو ایک لمحہ کے لئے بھی شرک کو برا سمجھنے اور توحید کے قائل ہونے کے لئے تیار نہ تھے، بلکہ بالفاظ دیگر بتوں کی محبت ان کی سرشت میں داخل تھی، اور پھر یہی ایک برائی نہ تھی بلکہ وہ معاشرہ ہر قسم کی برائیوں کا مرکز تھا ، اسی لئے ان برائیوں کے دور کو ’’عہد جاہلیت‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اور اسی عہد جاہلیت کی جہالتوں کے خوگر افراد کے سامنے اللہ اور اللہ کے اس دین کا تعارف کرانا تھا جس کی بنیاد شرک سے بیزاری اور خالص توحید پر تھی اور ہے،گویا ایسی چیز کی دعوت کی ذمہ داری رسول اللہ ﷺ پر نبوت کے ذریعہ ڈالی گئی جو اس وقت کے شرک کے خوگر افراد کی فکر اور مزاج کے بالکل خلاف تھی، اور وہ ایک پل کے لئے بھی اپنے من گھڑت معبود کو غلط سمجھنے کے لئے اور اپنے آباء واجداد کے طور طریق کے خلاف کسی دوسرے طور طریق اور مذہب کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ ان حالات کا خصوصی تقاضا یہ تھا کہ ابتدائی مرحلہ میں مخفی طور پر کچھ لوگوں کو اس حقیقت سے واقف کرایاجائے اور ان کو مخفی طور پراس کی دعوت دی جائے ، چناں چہ آپ نے ابتدائی مرحلہ میں اپنے قریبی احباب اور ان لوگوں کو مخفی دعوت کا محور بنایا جن کے مزاج وطبیعت کی نرمی سے آپ کو یہ محسوس ہوا کہ وہ اس دعوت قبول کریں گے اور اس کے معاون ثابت ہوں گے۔واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ابتدائی مرحلہ میں رسول اللہ ﷺ کی دعوت عموما اس طرح ہوتی تھی کہ لوگوں کے سامنے آپ اسلام کی تشریح کرتے ، قرآن کریم کی تلاوت کرتے، اور جنت دوزخ کا ذکر کرکے ایمان کے ثمرات وفوائد اور اس سے دوری کے برے انجام کو بیان کرتے۔ اور اس کو سن کر لوگ آپ کے شیدائی ہوجاتے اور آپ کی رسالت کی تصدیق کرنے والے بن جاتے۔ (دیکھئے: السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: ۵۳ )
ابتدائی مرحلہ میں آپ ﷺ نے حضرت خدیجۃ الکبری ، حضرت زید بن حارثہ ، حضرت علی بن ابی طالب ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہم کو اسلام سے واقف کرایا اور اس کے قبول کرنے پر ان کو آمادہ کیااور ان لوگوں نے اس کو قبول کرکے اولیت کا شرف حاصل کیا، اور وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے دعوتی مشن کے شریک ومعاون بن گئے۔پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جوقریش کے ایک باثر فرد تھے ،اس دعوت کو ان لوگوں تک پہونچایاجن پر انہیں اعتماد تھا اور جن کی فہم وفراست سے وہ سمجھ رہے تھے کہ وہ اس دعوت کے حریف بننے کے بجائے حلیف بن جائیں گے۔ چناں چہ آپ کی تحریک پر حضرت عثمان غنی ، حضرت زبیر بن عوام ، حضرت عبد الرحمن بن عوف ، حضرت سعدبن ابی وقاص ، حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا،پھر ان حضرت کے بعد اسی دور میں حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ، حضرت ارقم بن ابی ارقم مخزومی ، حضرت عثمان بن مظعون ، حضرت قدامہ بن مظعون، حضرت عبد اللہ بن مظعون ،عبیدہ بن حارث ، حضرت سعید بن زید اور ان کے اہلیہ فاطمہ بنت خطاب ، خباب بن الارت ، جعفر بن ابی طالب اور ان کی اہلیہ حضرت اسماء بنت عمیس ، حضرت خالد بن سعید بن عاص اور ان کی اہلیہ حضرت امینہ بنت خلف ، حضرت عمرو بن سعید بن عاص ، حضرت حاطب بن حارث اور ان کی اہلیہ فاطمہ بنت مجلّل ، حضرت خطاب بن حارث اور ان کی اہلیہ فکیہہ بنت یسار ، حضرت معمر بن حارث ، حضرت مطلب بن ازہر اور ان کی اہلیہ حضرت رملہ بنت ابی عوف ، حضرت عبد اللہ بن مسعود ، حضرت نعیم بن عبد اللہ ، حضرت مسعود بن ربیعہ ، حضرت عبد اللہ بن جحش اسدی ، حضرت ابواحمد بن جحش ، حضرت بلال ، حضرت صہیب، حضرت یاسر،حضرت عماربن یاسر، اور ان کی والدہ محترمہ اور اسلام کی سب سے پہلی شہیدہ حضرت سمیہ ، حضرت ام ایمن ، حضرت ام الفضل لبابۃ بنت الحارث، حضرت اسماء بنت ابی بکرصدیق ، حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہم نے اسلام قبول کیا،( الرحیق المختوم )اور اس طرح اسلام کی دعوت کے پہلے مرحلہ میں بہت سے لوگ اسلام کے حلقہ میں داخل ہوگئے اور اس قابل لحاظ تعداد کی وجہ سے مخفی دعوت کے طریقہ سے آگے بڑھتے ہوئے علانیہ طور پر اس تحریک کو آگے بڑھانے کے حالات پیدا ہوگئے ،چناں چہ اس مرحلہ میں اللہ تعالی نے آپ کو علی الاعلان دعوت کا حکم دیا ، اور اس کے بعد آپ نے طریقہ دعوت کو تبدیل کرتے ہوئے لوگوں کو علانیہ طور پر حق کو قبول کرنے کی دعوت دی اور شرک کی خطرناکی اور اس کے برے انجام سے ڈرایا۔
کتب تفسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ کھلے عام دعوت کا حکم اللہ کی طرف سے ملنے کے بعد آپ نے قریش کے چالیس افراد کو کھانے پر مدعو کیا، جب سارے لوگ کھانے سے فارغ ہوگئے تو ابولہب نے یہ کہہ کر سارے لوگوں کو منتشر کردیا کہ لوگو تم پر انہوں نے سحر کردیا ہے ، اور رسول اللہ ﷺ انہیں اپنا پیغام نہ سنا سکے، چناں چہ پھر دوسرے دن دوبارہ لوگوں کو کھانے پر مدعو کیااورجلدی سے انہیں اپنا یہ پیغام سنا یا:
یا بنی عبد المطلب انی انا النذیر الیکم من اللہ والبشیر ، قد جئتکم بما لم یجیء بہ احد ، جئتکم بالدنیا والآخرۃ ، فاسلموا تسلموا واطیعوا تهتدوا (تفسیر الدر المنثور: سورۂ شعراء : ۲۱۴)
اے بنوعبد المطلب ، بے شک میں اللہ کی طرف سے تمہیں ڈرانے والا اور خوش خبری سنانے والا ہوں ، میں تمہارے پاس ایسی چیز لے کر آیا کو جسے کوئی نہیں لایا، میں تمہارے پاس دنیا اور آخرت کی بھلائی لے کر آیا ہو، اس لئے تم اسلام قبول کرلو ،سلامتی پالوگے ، اور اطاعت کرو ہدایت پاؤگے۔
رسول اللہ ﷺ کی اس بات کو سن کر سب کے سب واپس ہوگئے اور کسی نے ان کے اس پیغام کو اس وقت قبو ل نہیں کیا۔
کتب سیرت اور کتب تفسیر سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس حکم اعلان کے بعد آپ نے لوگوں کو کوہ صفا کے دامن میں یا صباحاہ کہہ کر جمع کیا اور پھر تمثیلی طور پر پہلے ان سے اپنی راست گوئی کااقرار لیا اور پھر ان کو دین کی دعوت دی ، لیکن اس موقع پر ابولہب نے مجلس کو منتشر کردیا اور رسول اللہ ﷺ کو برا بھلا کہا۔
گویا آپ ﷺ نے الگ الگ وقت میں مختلف طریقوں پر لوگوں کو جمع کرکے ان کے سامنے اسلام کو پیش کیا اور ان کو اس کے قبول کرنے کی دعوت دی۔ اور اپنی دعوت کے سلسلہ کومکہ کی گلیوں اور بازاروں میں انفرادی اور اجتماعی ملاقات کی صورت میں جاری رکھا ،اور اہل مکہ کی طرف سے پیش آنے والی تکالیف پر صبر کرتے ہوئے حق کی آواز کومکہ کے ہرفرد تک پہونچادیا،پھر آپ نے مکہ کے قرب وجوار میں آباد افراد کی طرف توجہ فرمائی اور اسی سلسلہ میں آپ نے سن دس نبوی میں طائف کا سفر کیا ، اور دس دن تک وہاں قیام کرکے وہاں کے ایک ایک فرد تک کلمہ حق کو پہونچایا، لیکن وہاں کے لوگوں نے بھی اس پر منفی جواب دیا اور آپ کے ساتھ ناروا سلوک کرتے ہوئے آپ کو طائف سے واپس کردیا،اور آپ مکہ واپس آگئے۔بیت اللہ کی وجہ سے مکہ چونکہ ایک مرکزی مقام تھا اور مختلف قبائل کی وہاں آمد ہوا کرتی تھی ،اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ نے طائف سے واپسی کے بعد مکہ آنے والے قبائل کو دعوت دینے کا سلسلہ جاری کیا اور اور اس طرح اسلام کی دعوت مکہ سے باہر پہونچ گئی اورمکہ سے دور آباد لوگوں کوبھی کفر وشرک اور گمراہی سے نجات دلانے والے دین کے ظہور کی اطلاع مل گئی،اور اس طرح مکہ سے دور آبادبہت سے افراد اس سچائی کو قبول کرکے اس دین سے وابستہ ہوگئے۔
چھ افراد پر مشتمل مدینہ کا ایک قافلہ ۱۱ ؍نبوی میں مکہ فروکش ہوا ، رسول اللہ ﷺ نے ان سے ملاقات کی اور ان کو ایمان کی دعوت دی، جسے ان لوگوں نے صرف قبول ہی نہیں کیا بلکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ وعدہ کیا کہ وہ اپنی قوم تک بھی اس پیغام کو پہونچائیں گے،چناں چہ وعدہ کے مطابق ان لوگوں نے اس نبوی مشن کو اہل مدینہ کے سامنے بیان کیا اور پھر ان ہی کی تحریک پر بارہ افراد کا ایک قافلہ ۱۲؍نبوی میں مکہ آیاجن میں سے پانچ افراد وہ تھے وہ پہلے آچکے تھے اور مسلمان ہوچکے تھے ، جبکہ سات افراد نئے تھے۔ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی اور اسلام قبول کیا ۔(الرحیق المختوم)
ادھر مکہ کے حالات مسلمانوں کے لئے تنگ سے تنگ تر ہوتے جارہے تھے ، اور بالآخر اتنے تنگ ہوئے کے مسلمانوں کو ہجرت کے لئے مجبور ہونا پڑا اور پھر رحمۃ للعالمین ﷺ نے حکم الہی کے بعد مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ کو اپنا مستقر بنایا،اوراس طرح دعوتی مشن مکہ سے مدینہ منتقل ہوگیا ،اور جہاں مکہ سے اسلام کو نکالاگیا وہیں مدینہ میں اس کا استقبال کیا گیا ،اور مکہ کے بالکل برخلاف مدینہ اسلام اور مسلمانوں سے کے لئے ایک راحت بخش مقام ثابت ہوا ، یہاں پہونچ کر رسول اللہ ﷺ نے اپنے اسلوب دعوت کو ہمہ جہت بناتے ہوئے سب پہلے مدینے میں ایک خالص اسلامی نظام کے تابع معاشرہ کی بنیاد ڈالی،اور پھر اسلام کی آواز کو کھلے عام مختلف علاقوں تک پہونچانے کا انتظام کیا ، اور اسی ضمن میں آپ نے مختلف شاہان مملکت کو دعوتی خطوط بھی بھیجے ، نیز مختلف علاقوں سے آنے والے وفود کا استقبال کرکے ان کو دین کی حقیقت سمجھایا اور ان کو دین کی دعوت دی ۔اورجو افراد پہلے سے مسلمان ہوچکے تھے ان کو اسلامی احکامات بتائے ، اور زندگی کے تمام مراحل کے احکام کو عملی طور پر نافذ کرکے سب سے پہلے مدینہ کوایک اسلامی سلطنت بنایا،جہاں بندگان خدا پر صرف خدا کے قانون کا نفاذ ہوتا تھا۔ اوردعوت کی راہ میں یہود ونصاری کی طرف سے پیدا ہونے والی رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لئے ان سے معاہدے کئے ،اور اسلام دشمن طاقتوں کی اسلام مخالف شاطرانہ حرکتوں کو دور کرنے نیزاسلام کی ترقی اور اس کی اشاعت کی راہ میں حائل کفر کی طاقت کو کمزور کرنے کی خاطر جب جہادکی ضرورت پڑی تو آپ نے ان سے جہاد کیا ،اور یہ بتادیا کہ اب اس دعوت کو عالم تک پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا ، اور اللہ کے دین کی آواز اللہ کی زمین پر آباد اللہ کے بندوں تک پہونچ کر رہے گی ۔چناں چہ یہ آواز پوری دنیا میں آبادانسانوں تک ایسی پہونچی کہ خوش نصیب سننے والا اس کا اسیر ہوکر رہ گیا۔
*****